
عورت کا فتوی جاری کرنا جائز ہے یا نہیں۔؟؟
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
📜السوال__________↓↓↓
کیا عورت فتوی جاری کر سکتی ارشاد فرما دیجے
🖌الوسائل عبداللّٰہ
♦وَعَلَيْكُم السـَّلَام وَرَحمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ♦
الجواب بعون الملک الوھاب
فتوی دینا اور کسی شرعی مسئلہ کا حل بتانا ایک اہم شرعی اور دینی ذمہ داری ہے ہر ایک کیلۓ اس ذمہ داری کو ادا کرنا آسان نہیں۔ نیز ایک یا دو سال فقـہ کی کتب کا پڑھ لینا مفتی ہو جانے کے لیے کافی نہیں، بلکہ اسکے لئے محنت علم کی پختگی اور تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ حضرتِ امام شاطبی علیہ الرّحمـہ لکھتے ہیں
وعلی الجملة فالمفتي مخبرعن اللّٰه تعالیٰ کالنبي ونافذ أمره في الأمة بمنشورالخلافة کالنبي
ترجمہ الحاصل مفتی لوگوں کو اللّٰہ تعالیٰﷻ کے احکامات کی خبر دیتا ہے اور اس کے ارشادات کو لوگوں پر نافذ وجاری کرتاہے
(📔👈 الموافقات جلد ٤ ص ٢٤٤ تا ٢٤٥ )
خواتین کی دینی تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انہیں بنیادی دینی معلومات اور ضروری مسائل کا علم ہوجائے ان کی زیادہ ذمہ داری امورِ خانہ داری کا اہتمام ہے علوم کے اندر انہماک و اشتغال اور تحقیق وتدقیق مردوں کی ذمہ داری ہے،ایسے تمام مناصب جن میں ہرکس و ناکس کے ساتھ اختلاط اور میل جول کی ضرورت پیش آتی ہے شریعتِ اسلامی نے ان کی ذمہ داری مردوں پر عائد کی ہےاور عورتوں کو اس سے سبکدوش رکھا ہے انہی ذمّہ داریوں میں سے ایک جج اور قاضی (مفتی) بننے کی ذمہ داری ہے حضور اکرمﷺ اور حضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کے زمانے میں بڑی فاضل خواتین موجود تھیں مگر کبھی کسی خاتون کو جج اور قاضی بننے کی زحمت نہیں دی گئی چنانچہ اس پر اَئمہ اَربعہ کا اتفاق ہے کہ عورت کو قاضی اور جج بنانا جائز نہیں اَئمہ ثلاثہ کے نزدیک تو کسی معاملے میں اس کا فیصلہ نافذ ہی نہیں ہوگا ہمارے امام اعظم ابوحنیفـہ علیہ الرّحمـہ کے نزدیک حدود و قصاص کے ماسوا میں اس کا فیصلہ نافذ ہوجائے گا مگر اس کو قاضی بنانا گناہ ہے فقہ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب درمختار میں ہے
والمرأة تقضی فی غیر حد وقود وإن أثم المولی لہا) لخبر البخاری لن یفلح قوم ولوا أمرہم امرأة
اور امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرّحمـہ فرماتے ہیں عورتوں کو لکھنا سکھانا شرعاً ممنوع و سنت نصاریٰ و فتح باب ہزارانِ فتنہ اور مستان سرشار کے ہاتھ میں تلوار دینا ہے،جس کے مفاسد شدیدہ پر تجارب حدیدہ شاہد عدل ہیں
(📗👈 فتاویٰ رضویہ جلد ٢٣ ص٦٥٣ )
لہذا امور کے پیشِ نظر عورت کا فتوی جاری کرنا جاٸز نہیں اہم مسائل کے لیے لوگوں کو مستند مفتیان سے رجوع کرنے کامشورہ دیاجائےالبتہ خواتین کےخصوصی مسائل کے لیے دیگر خواتین ان سے رجوع کرسکتی ہیں لیکن اس کیلئے سوشل میڈیا کا ایسا استعمال جس میں غیروں سے اختلاط یا کوئی اور شرعی خرابی لازم آتی ہو یہ ہرگز ہرگز جائز نہیں
🌷واللّٰہ ورسولہ اعلم بالصواب🌷
کتبہ حضرت مولانا محمد عمرفاؔروق ربّانی صاحب قبلہ مدظلہ العالی النورانی دربھنگہ بہار ( الھند)
(🗂مورخہ 19/03/2020)
{📗شائع کردہ سنی مسائل شرعیہ گروپ📗}
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ