
(مسئلہ) کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین کہ زید کی ایک زمین ہے وہ اس کو بیچنا چاہتا ہے اور زید پہلے اپنے خاندان والوں میں جن کے قریب وہ زمین ہے اُن سے کہتا ہے کہ میں اپنی زمین بیچ رہا ہو اگر آپ کو خرید نی ہے تو بتا دیں تو خاندان والے (یعنی سگے بھائی اور بھتیجے) زمین میں کمیاں نکالتے ہیں اور صحیح ریٹ نہیں لگاتے جبکہ اس کے بعد ایک اور پارٹی آتی ہے اور وہ صحیح ریٹ لگاتی ہے اور بیعانہ بھی دے دیتی ہے اب خاندان والوں کو پتا چلتا ہے کے زمین ہمارے ہاتھ سے جا رہی ہے تو اب یہ لوگ کہنے لگے کے آپ زمین کسی غیر کو کیوں بیچ رہے ہیں زمین تو ہم خريدیں گے آپ اُنکو زمین نہ بیچیں اب زید بیچ میں پھنس گیا، زید نے اس بیعانہ دینے والی پارٹی سے بات کی کے میں زمین اپنے خاندان والوں کو بیچوں گا کسی طرح سے بیعانہ واپس ہوگیا اور زید نے زمین اپنے خاندان والوں کو بیچ دی۔ اب طلب امر یہ ہے کہ کیا زید کو اپنے خاندان والوں کے علاوہ زمین بیچنے کا حق تھا یا نہیں؟ اور اگر تھا تو کیا خاندان والوں کا بیعانہ واپس کروانا اور جب ایک خرید ہوچکی ہے تو اس پر خاندان کے لوگوں کو خرید کرنا اہل علم کے نزدیک صحیح ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر ممنون و مشکور اور الله کے یہاں ماجور ہوں۔
(جواب) زید اپنی زمین جہاں چاہے بیچ سکتا ہے لیکن جبکہ ایک شخص سے سودا طے کرچکا تو اسے بالکل نہیں چاہیے تھا کہ وہ بیعانہ واپس کرتا لیکن اب جب کہ پورا بیعانہ واپس کرچکا تو اب اپنے رشتے دار کو بیچنا صحیح ہوا اگرچہ زید اور رشتے داروں کا یہ فعل گناہ ہوا ان کے لیے شرعا مکروہ تحریمی تھا کہ وہ سودے پر سودا کرتے یا دوسرے شخص پر بیعانہ کی رقم واپس لینے پر زور ڈالتے۔ زید اور خاندان والوں کو چاہیے کہ اگر وہ شخص راضی وخوش نہ ہو تو اسے راضی کرے اور اللہ تبارک وتعالی سے معافی کے طلبگار ہوں یہ بات نہیں چاہیے کہ اس سے تعلق قطع ہوجائے
حدیث مبارک میں ہے لا يبع بعضكم على بيع بعض یعنی تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے (صحيح البخاری م ٢١٥٨ ٥١٣٢ صحيح مسلم م: ١٤١٢ سنن الترمذی م: ١٢٩٢ سنن أبی داؤد م: ٢٠٨١ سنن النسائی م: ٤٥٠٤ سنن ابن ماجه م: ٢١٧١ وعن أبو هريرة م: ٢١٧٢ صحيح مسلم م: ١٥١٥ صحيح البخاری م: ٢١٥٨ الحديث صحيح وأسانيده صحيحة إلا سند ابن ماجه إلى أبي هريرة فيه سويد بن سعيد مختلف فيه وقد تابعه أحمد بن منيع وقيبة وغيرهما من الثقات)
قال الإمام رحمة الله عليه اسی طرح دوسرا مسلمان جب ایک چیز خرید رہا ہو اور قیمت فیصل ہوگئی ہو اور گفتگو ہنوز قطع نہ ہوئی ایسی حالت میں قیمت بڑھا کر خواہ کسی طور پر خود خرید لینا (مکروہ تحریمی ہے) فی الدر کرہ تحریما السوم على سوم غيره ولو ذميا أو مستأمنا بعد الاتفاق على مبلغ الثمن وإلا لا، لأنه بيع من يزيد اھـ مختصرا (فتاوی رضویہ ٦٠٦/٢٣) یعنی در مختار میں ہے کہ کسی کے بھاؤ پر بھاؤ لگانا مکروہ تحریمی ہے اگرچہ پہلے بھاؤ والا ذمی ہو یا مستامن ہو جبکہ مبلغ ثمن پر اتفاق ہوچکا ہو ورنہ ثمن پر اتفاق کے بغیر دوسرے کا بھاؤ لگانا مکروہ نہیں کیونکہ اس صورت میں نیلامی والی بیع ہوجائے گی
قال النعيمی رحمه الله یہاں (حدیث میں) لفظ بیع بمعنی فروخت بھی ہوسکتا ہے اور بمعنی خرید بھی یعنی جب دو شخص کوئی چیز خرید وفروخت کررہے ہوں اور سودا طے ہو چکا اور قریبا بات پختہ ہوگئی تو نہ تو کوئی شخص بھاؤ بڑھا کر وہ چیز خریدے اور نہ کوئی شخص بھاؤ سستا کرکے خریدار کو توڑے یہ دونوں باتیں ممنوع ہیں، نیلام کا یہ حکم نہیں ہاں بولی دیتے وقت بات طے نہیں ہوتی جو بولی بڑھائے وہ لے لے یہ جائز ہے (مرآۃ المناجیح ج ٤ م ٢٨٤٧)
بہار شریعت (٧٢٣/٢) میں ہے ایک شخص کے دام چکا لینے کے بعد دوسرے کو دام چکانا ممنوع ہے اس کی صورت یہ ہے کہ بائع ومشتری ایک ثمن پر راضی ہوگئے صرف ایجاب وقبول ہی یا مبیع کو اُٹھا کر دام دیدینا ہی باقی رہ گیا ہے دوسرا شخص دام بڑھا کر لینا چاہتا ہے یا دام اُتنا ہی دے گا مگر دکاندار سے اسکا میل ہے یا یہ ذی وجاہت شخص ہے دکاندار اسے چھوڑ کر پہلے شخص کو نہیں دے گا اور اگر اب تک دام طے نہیں ہوا ایک ثمن پر دونوں کی رضا مندی نہیں ہوئی ہے تو دوسرے کو دام چُکانا منع نہیں جیسا کہ نیلام میں ہوتا ہے اسکو بیع من یزید کہتے ہیں یعنی بیچنے والا کہتا ہے جو زیادہ دے لے لے اس قسم کی بیع حدیث سے ثابت ہے والله تعالی اعلم
كتبه ندیم ابن علیم المصبور العینی
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ