Headlines
Loading...
خواجہ غریب نواز اور انکے پیر ومرشد کے ایک واقعہ کی حقیقت؟

خواجہ غریب نواز اور انکے پیر ومرشد کے ایک واقعہ کی حقیقت؟


(مسئلہ) کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسٔلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے تقریر کے دوران کہا جب خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے تیسری مرتبہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ سے فرمایا اب کہاں تک دیکھتے ہو؟ تو عرض کیا حضور عرش اعلی کے آگے تک الله تعالی کی حقیقت کو دیکھتا ہوں بکر نے کہا: یہ جملہ سرا سر غلط ہے ایسا جملہ ہرگز نہیں بولنا چاہئے اس لیے کہ جب حقیقت محمدی ﷺ کو کوئی نہیں جانتا تو حقیقت الله تعالی کو کون جان سکتا ہے اور عقائد حقہ اہلسنت وجماعت کے صفحہ ٥ پر ہے ادراک حقیقت الٰہیہ میں انبیاء و اولیاء عاجز ہیں تجلیات ذاتی وصفاتی واسمائی نصیب انبیاء واولیاء حسب المراتب دنیا میں ہوتی ہیں جبکہ بکر کا کلام حقیقت اللہ تعالی سے ہے از روے شرع ایسا جملہ بولنے والے اور اس پر عقیدہ رکھنے والے پر حکم شرع کیا ہے؟ معتبر کتابوں سے مفصل جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں

(جواب) تیسری بار حکم فرمانے کا ذکر کتب میں نہیں ملا انیس الارواح کے ترجموں میں واقعہ اس طرح ہے دوسرے دن جب حاضر خدمت حاضر ہوا تو ارشاد فرمایا بیٹھ جاؤ اور ایک ہزار مرتبہ سورہ اخلاص کی تلاوت کرو میں نے حکم کی تعمیل کی اس کے بعد فرمایا آسمان کی طرف دیکھو جب میں نے نگاہ اٹھائی تو فرمایا تمہیں کیا نظر آتا ہے؟ میں نے عرض کیا عرشِ عظیم تک سب دکھائی دیتا ہے۔ پھر ارشاد ہوا زمین کی طرف دیکھو میں نے زمین پر نظر ڈالی تو فرمایا اب کیا نظر آتا ہے؟ میں نے جواب دیا تحت الثریٰ تک ہر چیز نظر آتی ہے اس پر دوبارہ حکم فرمایا ایک ہزار مرتبہ سورہ اخلاص پڑھو میں نے پھر تلاوت کی بعد ازاں فرمایا دوبارہ آسمان کی طرف دیکھو میں نے اوپر نظر کی تو دریافت فرمایا اب تمہیں کیا دکھائی دیتا ہے؟ میں نے عرض کیا حجابِ عظمت تک سب کچھ اس کے بعد فرمایا اپنی آنکھیں بند کرلو میں نے آنکھیں موند لیں ارشاد ہوا اب آنکھیں کھولو میں نے حکم کی تعمیل کی تو آپ نے اپنی دو انگلیاں دکھاتے ہوئے دریافت فرمایا اب تمہیں کیا دکھائی دیتا ہے؟ میں نے عرض کیا اٹھارہ ہزار عوالم اس پر فرمایا جا تیرا کام سنور گیا (انیس الاروح)

زید کا مذکور جملہ کہنا درست نہیں لیکن اس کے قول پر حکم کفر وبدمذہبی بھی نہیں کہ اس میں تاویل ہے الله عزوجل کی حقیقت دیکھتا ہوں اس قول سے یہ مراد لیا جاسکتا ہے کہ قائل الله تعالی کی قدرت کے نظارے دیکھتا ہے جس سے الله کا حق ہونا معلوم ہوتا ہے یا اس پر ایمان پختہ ہوتا ہے یا بذریعہ کشف معرفت الہی حاصل کرنا جسے معرفت کشفیہ کہتے ہیں یہاں ہم حقیقت ذات اور کنہ صفات کی معرفت مراد نہیں لیں گے جو عقلا اور شرعا محال ہے

قال فضل الرسول البدايوني قالوا أول واجب بإيجاب الله علينا عرفان الله أي معرفة وجوده وألوهيته وما له من الكمال لاكنه ذاته وصفاته لامتناعه عقلا وشرعا قيل المعرفة علي أربعة أقسام الحقيقية وهي معرفة الله تعالى لنفسه والعيانية وهي مختصة بالآخرة عند مانعي الروية في الدنيا لغير نبينا صلى الله تعالى عليه وآله و سلم وتحصل لأهل الجنة في الجنة والكشفية و هي منحة إلهية ولا نكلف بمثلها إجماعا والبرهانية وهي أن يعلم بالدليل القطعي وجوده تعالى وما يجب له وما يستحيل عليه وهي المرادة في هذا العلم والقرآن مملو بالحث عليها والنظر فيها والاستدلال عليها (المعتقد والمنتقد ص: ١٦)

وقال الخفاجي رحمه الله في مقدمة كتابه وفي شرح السيد هنا نقلا عن التفسير الكبير أنا لا نعلم كنه صفات الله كما لا نعلم كنه ذاته وإنما المعلوم لنا أنا لا نعلمها إلا بلوازمها وآثارها وذاته لم تكمل بها لأن الذات كالمبدأ لها فيلزم استكمال الذات بالممكن بالذات بل كمال الذات يستلزم الصفات (نسیم الریاض ٢٨/١) والله تعالي أعلم بالصواب

كتبه ندیم ابن علیم المصبور العینی

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ