
قبروں پر مردوں کے نام کی تختی لگانا کیسا ہے؟
🔵قبروں پر مردوں کے نام کی تختی لگانا کیسا ہے؟🔵
ا________(🖊)__________
🟣السلام علیکم ورحمتہ الله وبرکاتہ🟣
📜سوال__________↓↓↓
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں قبروں پر مردوں کے نام کی تختی لگانا کیسا ہے؟ حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
💫المستفتی : حامد رضا دہلی
ا________(🖊)__________
🟣وعلیکم السلام ورحمتہ الله وبرکاتہ🟣
الجواب بعون الملک الوھاب
اگر ضرورت ہو تو قبر کے سرہانے ماربل یا پتھر کا کتبہ لگانا جس پر میت کا نام تحریر ہو مباح ہے مگر اس پر آیت قرآنیہ وغیرہ نہ لکھیں کہ بے ادبی ہو جیسا کہ حضرت ابو داؤد سلیمان بن الاشعث الازدی السجستانی علیہ الرحمہ سنن ابی داؤد میں نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عبد المطلب ابن وداعہ رضى الله عنه سے روايت ہے لما مات عثمان بن مظعون اخرج بجنازته فدفن فامر النبى صلى الله عليه وسلم رجل أن يأتيه بحجر فلم يستطع حمله فقام إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم وحسر عن ذراعيه قال كثير قال المطلب قال الذي يخبرني ذالك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال كانى انظر الى بياض ذراعى رسول الله صلى الله عليه وسلم حين حسر عنهما لم ثم حملها فوضعها عند رأسه وقال اتعلم بها قبر اخى و ادفن اليه من مات من اهلى اھ یعنی جب عثمان بن مظعون نے وفات پائی تو ان کا جنازہ لا کر دفن کیا گیا تو نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک شخص کو پتھر لانے کا حکم فرمایا مگر وہ اسے اٹھا نہ سکا تو پھر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم ادھر تشریف لے گئے اور اپنی آستینیں چڑھائیں راوی کہتے ہیں کہ جس شخص نے مجھے اس واقعہ کی خبر دی وہ کہتے تھے گویا کہ میں ابھی ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہ کہنیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھولا پھر اس پتھر کو خود ہی اٹھا لائے اور قبر کے سرہانے رکھ دیا اور فرمایا میں اس کے ذریعے اپنے بھائی کی قبر کا نشان لگاتا ہوں اور انہیں کے پاس اپنے فوت ہونے والے گھر والوں کو دفن کروں گا اھ
(📗 سنن ابی داؤد ج 3 ص 278 رقم حدیث 3206 کتاب الجنائز باب فی جمع الموتی فی قبر والقبر یعلم )
اور علامہ علاء الدین محمد بن علی الحنفی الحصکفی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ لا بأس بالكتابة إن احتيج إليها حتى لا يذهب الأثر ولا يمتهن اھ یعنی اور باب الجنائز میں کہ ضرورتاً قبر پر لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں تاکہ نشان نہ جاتا رہے اور پامال نہ ہو اھ
(📙 در مختار ج 2 ص 237 کتاب الصلاۃ باب صلوة الجنازۃ دار الکتب العلمیہ بیروت )
اور البحر الرائق میں ہے کہ وَ إِنْ اُحْتِيجَ إلَى الْكِتَابَةِ حَتَّى لَا يَذْهَبَ الْأَثَرُ وَلَا يُمْتَهَنُ فَلَا بَأْسَ بِهِ فَأَمَّا الْكِتَابَةُ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَلَا اھ
(📗 البحر الرائق ج 2 ص 209 : دار الکتاب الاسلامی )
اور بہار شریعت میں ہے کہ اگر ضرورت ہو تو قبر پر نشان کے لیے کچھ لکھ سکتے ہیں مگر ایسی جگہ نہ لکھیں کہ بے ادبی ہو ، ایسے مقبرہ میں دفن کرنا بہتر ہے جہاں صالحین کی قبریں ہوں اھ
( 📔بہار شریعت ج 1 ص 846 قبر و دفن کا بیان )
🔷والله تعالیٰ اعلم بالصواب🔷
کتبہ حضرت علامہ ومولانا مفتی محمدکریم اللہ رضوی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی
ا________(🖊)__________
🗓️مؤرخہ: ۱۸رجب المرجب ١٤٤١ھ
📚شائع کردہ سنی مسائل شرعیہ گروپ📚
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ