Headlines
Loading...



(مسئلہ) شادی کو ۲۱ سال ہو چکے ہیں۔ شوہر کچھ نہیں کماتا، بیوی اپنی تمام ضروریات خود پورا کرتی ہیں۔ تقریباً تین سال سے ان کے درمیان ازدواجی تعلقات بھی نہیں ہیں تین مہینے پہلے شوہر نے بیوی سے کہا کہ آپ میری نکاح میں نہیں ہو اور یہ بات تین بار کہی اس سے پہلے بھی وہ کئی مرتبہ یہی الفاظ بول چکا ہے۔ ایک دن بیوی تنگ آ کر ان سے کہہ بیٹھی کہ "آپ مجھے چھوڑ دو اس پر شوہر نے تین بار کہا: "آپ میرے نکاح میں نہیں ہیں ان کے تین بچے ہیں اور وہ ان سب کی کفالت خود ہی کرتی ہیں۔ کیا شوہر کے یہ الفاظ طلاق کے زمرے میں آتے ہیں؟ اگر طلاق واقع ہو چکی ہو، تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ بچوں کی کفالت اور خاتون کے نان ونفقہ کا شرعی اور قانونی پہلو کیا ہوگا؟

(جواب) میں سمجھتا ہوں کہ سائل نے شروع میں جو تین بار کہنا ذکر کیا ہے وہ آخر کا خلاصہ ہے یعنی بیوی نے شوہر سے کہا مجھے چھوڑ دو تو شوہر نے جواباً تین بار کہا آپ میرے نکاح میں نہیں ہیں اس کا ذکر سوال میں دو جگہ ہوا ہے جبکہ واقعہ ایک ہی ہے اور اس کے علاوہ بھی شوہر مختلف مواقع پر یہی الفاظ دہرا چکا ہے۔ جاننا چاہیے کہ یہ الفاظ صریح نہیں ہیں بلکہ کنایات طلاق سے ہیں اور ان میں شوہر کی نیت کا اعتبار ہوگا آخری واقعہ میں شوہر کا تین دفعہ یہ جملہ کہنا اگر طلاق کی نیت سے تھا تو ایک طلاق بائن پڑجائے گی تین جملوں پر تین نیتوں سے تین طلاقیں واقع نہ ہوں گی بلکہ مزید دو دفعہ کہنے کو پہلی طلاق کی حکایتیں سمجھی جائیں گی ہاں اگر کسی ایک جملے سے تین طلاق کی نیت کی تو تین طلاقیں پڑجائیں گی اور اگر نیت نہ تھی تو ایک بھی طلاق نہ واقع ہوگی اس کے علاوہ کسی اور دن بھی یہ جملہ کہہ چکا ہے اور طلاق کی نیت کی تھی تو یہ طلاق بھی صحیح ہوگی یاد رہے کہ جب ایک وقت میں دو، تین یا دس دفعہ بھی یہ جملہ دہرائے تو صرف پہلی دفعہ بنیت کہنا طلاق کو واقع کرے گا لہذا اگر ایسا کم سے کم تین علیحدہ علیحدہ اوقات میں ہوا ہے کہ شوہر نے یہ جملہ طلاق کی نیت سے دہرایا ہو اس طرح کہ ان تینوں میں سے کسی ایک کو دوسری طلاق کی حکایت نہ قرار دیا جاسکے تو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی کنایات طلاق میں رضا کی صورت میں شوہر کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہوتا ہے اگر وہ بقسم کہہ دے کہ میں  نے ان لفظوں میں کسی سے طلاق کی نیت نہ کی تھی قطعًا مان لیں گے اور انہیں میاں بیوی جانیں گے، اگر وہ اس قسم میں جھوٹا ہے تو وبال اس پر ہے عورت پر الزام نہیں ہاں اگر غصے کی حالت میں مذکور جملے کہے تھے تو نیت کا اعتبار نہ ہوگا طلاق واقع ہوجائے گی اگرچہ کہے کہ طلاق کی نیت نہ تھی لیکن یہاں بھی ان جملوں کو شمار نہ کیا جائے جنہیں حکایت طلاق قرار دیا جاسکتا ہے والله تعالی اعلم

كتبه ندیم ابن علیم المصبور العینی 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ