Headlines
Loading...


شدید ضرورت کے وقت سود لینا کیسا ہے؟

✧✧✧ـــــــــــــــــ{💡}ـــــــــــــــــــــ✧✧✧

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

📜السوال__________↓↓↓

کیا فرماتے علماء کرام اس مسئلہ پر زید بہت پرشان ہے اور اسے پیسے کی سخت ضرورت پڑی اسنے سود پر پیسا لیا کیا اسکا پیسا لینا جائز ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی

السائل::: محمد غفران

وَعَلَيْكُم السـَّلَام وَرَحمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ

📝الجواب بعون الملک الوھاب 

صورت مستفسرہ میں جواب یہ ہے بوقت ضرورت شدید سود لینا جاٸز ہے

سرکار اعلی حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ سود لینا مطلقاً عموماً قطعاً سخت کبیرہ اور سود دینا بہ ضرورت شرعی و مجبوری ہوتو جاٸز ہے ورنہ نہیں درمختار میں ہے کہ یجوز للمحتاج الاستقراض بالربا)

ہاں ضرورت جیسے بیٹی بیٹے کی شادی یا تجارت بڑھانا یا مکان بنانے کے لیے سودی پر روپیہ لینا حرام ہے 

(وفی الاشباہ والنظاٸر یجوز للمحتاج الاستقراض بالرالخ)

مگر عوام جیسے محتاج وضرورت ہیں وہ نہیں بلکہ محتاج واقعی وہ ہے جس کی تفصیل سرکار اعلی حضرت نے فرماٸی ہے محتاج کے یہ معنی جو واقعی حقیقی ضروریات قابل قبول شرع رکھتاہوں کہ نہ اس کے بغیر چارہ ہو نہ کسی طرح بے سودی روپیے ملنے کا یار اور نہ ہرگز جاٸز نہ ہوگا جیسے لوگوں میں راٸج ہے کہ اولاد کی شادی کرنی چاہا سوروپیے پاس میں ہے ہزار روپیے مگانے کو جی چاہا تو نوسو سودی نکلواۓ یا مکان رہنے کو موجود ہے دل پکے محل کو ہوا سودی قرض لیکر بنایا یا سودوسو کی تجارت کرتے ہیں قوت اہل وعیال بقدر کفایت ملتا ہے نفس نے بڑا سود اگر بننا چاہا پانچ چھ سو سودی نکلوا کر لگادیتے یا گھر میں زیور وغیرہ موجود ہے جسے بیچ کر روپیہ حاصل کرسکتے ہیں نہ بیچا بلکہ سودی قرض لیا وعلی ھذالقیاس بہت ساری صورتیں ہیں کہ یہ ضرورتیں نہیں تو ان میں حکم جواز نہیں ہوسکتا اگرچہ لوگ اپنے زعم میں ضرورت سمجھیں 

(لھذا) قوت اہل وعیال کے لیے سودی قرض لینے کی اجازت اسی وقت ہوسکتی ہے جب اس کے بغیر کوٸی طریقہ بسر اوقات کا نہ ہو نہ کوٸی پیشہ جانتا ہو نہ کوٸی نوکری ملتی ہے جس کے ذریعے دال روٹی اور موٹا کپڑا محتاج آدمی کی بسر کے لاٸق

(📔فقہی معلومات 📖ص47 تا ص 48)

🌻واللہ اعلم باالصواب🌻

کتبہ غلام شمس ملت محمدسلطان رضا شمسی بلہاوی خادم ال تدریس مدرسہ حنفیۃ البرکات پر کوٹ ضلع تنہؤ(نیپال)

 🗂 مؤرخہ:👈(۲۲) شعبـان المعـظم ۱۴۴۱؁ھ

 (📚شائع کردہ سنی مسائل شرعیہ گروپ📚)

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ