Headlines
Loading...

(سوال) کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید نے بکر سے پوچھا قرآن کی سورتوں کے نام کس نے رکھے ہیں؟ تو بکر کو اس بارے میں مکمل علم نہیں تھا اس لیے اس نے جواب دیا کہ یہ سب الله تعالی کی طرف سے ہیں یعنی سورتوں کے نام اللہ تعالی نے رکھے ہیں سوال یہ ہے کہ کیا بکر نے درست جواب دیا؟ اگر اس کا جواب غلط ہو تو کیا اس پر کوئی شرعی حکم یا گناہ لازم آتا ہے؟ نیز قرآن کی سورتوں کے نام کس نے رکھے ہیں؟

(جواب) بکر کا یہ کہنا کہ سورتوں کے نام سب الله تعالی کی طرف سے ہیں شرعا قابل گرفت نہیں لیکن یہ مطلب کہ الله عزوجل نے یہ نام رکھے ہیں ثابت نہیں ہے لہذا ایسا کہنا درست نہیں ہے زید پر اس مراد کے ساتھ بھی کوئی سخت حکم نہیں لیکن اسے سمجھایا جائے تاکہ وہ کبھی کسی غیر ثابت بات کو یا بغیر علم کسی بات کو الله عزوجل کہ طرف منسوب نہ کرے۔ قرآن مجید کی سورتوں کے نام نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی الله عنهم کے زمانہ سے ہی مشہور رہے ہیں لیکن یقین سے کسی ایک فرد کا نام نہیں لیا جاسکتا امام سیوطی فرماتے ہیں قال الجعبري حد السورة قرآن يشتمل على آي ذي فاتحة وذي خاتمة وأقلها ثلاث آيات وقال غيره السورة الطائفة المترجمة توقيفا أي المسماة باسم خاص بتوقيف من النبي ﷺ وقد ثبتت جميع أسماء السور بالتوقيف من الأحاديث والآثار ولولا خشية الإطالة لبينت ذلك. یعنی جعبری نے کہا سورہ کی حد یہ ہے کہ وہ قرآن کا ایسا حصہ ہو جس میں آیات ہوں اس کی ایک ابتدا اور ایک انتہا ہو۔ اور اس کی کم سے کم مقدار تین آیات ہے اور دوسروں نے کہا سورہ ایک وہ خاص طائفہ (حصہ) ہے جسے نبی اکرم ﷺ کی طرف سے مخصوص نام کے ساتھ متعین کیا گیا ہو، یعنی اس کا نام توقیفاً رکھا گیا ہو تمام سورتوں کے نام احادیث اور آثار سے توقیفی طور پر ثابت ہیں اور اگر طوالت کا خوف نہ ہوتا تو میں اس کو تفصیل سے بیان کرتا انتهى والله تعالى أعلم باالصواب 

كتبه: ندیم ابن علیم المصبور العینی 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ