گناہ کے بعد توبہ کرکے پھر وہی گناہ کیا تو؟



 السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کسی گناہ میں مبتلا تھا اس نے جب گناہ کر لیا تو اس کو اپنے اوپر بہت شرم آی تو اس نے دل ہی میں یہ کہا کہ کلما کی قسم میں آج کے بعد یہ گناہ نہیں کروں گا لیکن شیطان کے جھال میں آکر اسنے پھر وہی گناہ کر لیا اب اسکا کیا حکم ہوگا کلما والی طلاق واقع ہو جاے گی یا نہیں جناب مفتیانِ کرام بمع حوالہ جواب عنایت فرمائیں

سائل محمد ساجد ملتان شریف پاکستان سے

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکتہ 

الجواب بعونِ الملک الوہاب 

صورتِ مسئولہ میں زید نے دل ہی دل میں یہ کہا کہ کلمہ کی قسم میں آج کے بعد یہ گناہ نہیں کروں گا پھر بعد میں وہی گناہ دوبارہ کر بیٹھا اس بارے میں درج ذیل شرعی نکات سمجھنا ضروری ہیں 

دل میں قسم کھانے کا حکم

فقہِ حنفی کے مطابق صرف دل میں قسم کھانے سے شرعاً قسم منعقد ہی نہیں ہوتی، کیونکہ قسم کے منعقد ہونے کے لیے زبان سے الفاظ کا ادا کرنا شرط ہے

لہٰذا اگر واقعی صرف دل میں کہا تھا، زبان سے کچھ نہیں بولا، تو: نہ قسم ثابت ہوئی نہ کفارہ لازم

نہ کسی قسم کی طلاق واقع ہوئی

📖 فتاویٰ ہندیہ میں ہے کہ الْيَمِينُ لَا تَنْعَقِدُ إِلَّا بِاللِّسَانِ فَأَمَّا مَا كَانَ فِي الْقَلْبِ فَلَا حُكْمَ لَهُ

حوالہ:الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الایمان جـ 2 صـ 52

مفہوم: قسم زبان سے کہنے سے ہی منعقد ہوتی ہے، دل میں ہونے والی بات کا کوئی حکم نہیں

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب قسم ہی نہیں ہوئی تو پھر حکم کیسا فقط والسلام

واللہ اعلم بالصواب 

کتبہ ناچیز محمد شفیق رضا رضوی خطیب و امام سنّی مسجد حضرت منصور شاہ رحمت اللہ علیہ بس اسٹاپ کشنپور فتحپور الھند

ایک تبصرہ شائع کریں

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ